اپنے ہاتھوں سے کردیا آزاد
جس پرندے میں جان تھی میری
اِک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
میرے سلسلے بھی عجیب تھے
تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈنا
کوئی فلسفہ نہیں عشق کا، جہاں دل جھکے وہیں سر جُھکا
وہیں ہاتھ جوڑ کے بیٹھ جا، نہ سوال کر، نہ جواب دے
تمہارا تھا، تمہارا ہوں
تمہارا ہی رہوں گا میں
میرے بارے میں
اس درجہ غلط فہمی میں مت رہنا